یوں بھی
کچھ لوگ ترے دل میں رہے ہیں جیسے
برف کے گھر میں کوئی صحرا نشیں رہتا ہے
برف کے گھر میں کوئی صحرا نشیں رہتا ہے
یہی سانس ہے،
یہی میرا آخری چانس ہے
میرے پاس
دوسری زندگی کا ٹکٹ نہیں
ادریس بابر
یہ تجھے ایک
نظر دیکھنے والوں کا ہجوم
میری نا پختہ
بیانی کے سوا کچھ بھی نہیں
جتنے چہرے ہیں
وہ مٹی کے بنائے ہوئے ہیں
جتنی آنکھیں
ہیں وہ مٹی کے سوا کچھ بھی نہیں
یہ اور بات،
تری کال کاٹ دیتے ہیں
تیرے بغیر
ہمارا گزارا کوئی نہیں
ادریس بابر
یہ وہ شہر ہے
جس میں کوئی گھر بھی خوش نہیں
داد ستم نہ دے
کہ ستم گر بھی خوش نہیں
یہ جو شخص
لگتا ہے پھول سا اسے کچھ نہ ہو
مجھے کچھ بھی
ہو مگر اے خدا، اسے کچھ نہ ہو
یہ دیا جلایا
ہے،میں نے یار کے نام پر
تجھے پہلے
کہتا ہوں اے ہوا، اسے کچھ نہ ہو
احمر فاروقی
یہ زندگی کی
آخری شب ہی نہ ہو کہیں
جو سو گئے ہیں
ان کو جگا لینا چاہیے
ظفر اقبال
یہی جو تجھ سے
ملنے اور بچھڑنے کے لیے تھے
وہی دن رات سب
کاموں میں ضائع جا رہے ہیں
ادریس بابر
یوں سجا چاند
کہ جھلکا تیرے انداز کا رنگ
یوں فضا مہکی
تو بدلا مرے ہم راز کا رنگ
سایۂ چشم میں
حیراں رخ روشن کا جمال
سرخی لب میں
پریشاں تری آواز کا رنگ
یہ وقت بھی
گزر نہیں رہا ہے ور
میں خود اسے
گزار بھی نہیں رہا
ادریس بابر
یہ ہمیں ہیں
کہ ترا درد چھپا کر دل میں
کام دنیا کے
بدستور کیے جاتے ہیں
صبا اکبر
آبادی
یہ بھی اک
مصیبت ہے جو رات گئے تک چلتی ہے
اپنے آپ سے
باتیں کر کے اپنے آپ سے ڈر جانا
میر شفقت
یار تیرے مارے جانے پر بہت
افسوس ہے
اور اپنے بچ نکلنے کی خوشی اپنی جگہ
اور اپنے بچ نکلنے کی خوشی اپنی جگہ
ادریس بابر
یہاں نہیں ہوں تو اپنی طرف
سے دیکھ مجھے
پتہ چلے کہ ترے سلسلے میں ہوں کہ نہیں
پتہ چلے کہ ترے سلسلے میں ہوں کہ نہیں
میر شفقت
یہ صفِ دل زَدگاں ہے, تجھے
احساس رہے
تُو یہاں صرف مرے ساتھ کھڑا سجتا ہے
حمیدہ شاہین
تُو یہاں صرف مرے ساتھ کھڑا سجتا ہے
حمیدہ شاہین
یہ جان لو کہ تم سے پہلے تم سے بعد,
کوئی نہ ہوگا......جتنے خاص... تم ہوئے
ادریس بابر
یہ گاڑیاں ہیں نا پکّی سڑکوں
پہ تیز چلتی
میں سست رو ہوں سو میں تو فٹ پاتھ پر چلوں گا ۔۔
میں سست رو ہوں سو میں تو فٹ پاتھ پر چلوں گا ۔۔
یہ بھی ایک مصیبت ہے جو رات
گئے تک چلتی ہے
اپنے آپ سے بات کر کے اپنے آپ سے ڈر جانا
اپنے آپ سے بات کر کے اپنے آپ سے ڈر جانا
میر شفقت
یہ کیا گھٹن ہے محبت کی پہرہ داری میں
وہ کاغذوں
پہ کھلی کھڑکیاں بناتا ہے
یہ ضروری
تو نہیں نالہِ فرہاد رہے
ہم تجھے
بھول بھی سکتے ہیں، تجھے یاد رہے
یاد رکھ
خود کو مٹائے گا تو چھا جائے گا
عشق میں
عجز ملائے گا تو چھا جائے گا
یہ دل
کوئی پر سکون جنگل ہے کچھ دنوں سے
برے
ارادوں کے سارے حیوان مر چکے ہیں
یہ جو
دنیا ہے ہمارے درمیاں آئی ہوئی
اس کو بھی
ہوتا تو ہوگا درمیاں ہونے کا دکھ
یہ سیلِ
گریہ غبارِ عصیاں کو دھو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی
کوئی کہیں
چھپ کے رونا چاہے تو رو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی
یہ طلسمات
کی دنیا ہے، یہاں کیا معلوم
ایک دن
مصر کے اہرام کو پر لگ جائیں
یا مجھے
ٹھیک سے رونا نہیں آتا یا پھر
دکھ مرا
دیدہِ نمناک سے آگے کا ہے
یہ آرزو تھی کہ ہم اس کے ساتھ ساتھ چلیں
مگر وہ شخص تو رستہ بدلتا جاتا ہے
نوشی گیلانی
یا مرے غم میں بھی شریک بنو
یا مری ہر خوشی سے دور رہو
یا مری ہر خوشی سے دور رہو
معید مرزا
یہ خامشی وہ بلا ہے کہ چیخ اٹھے اگر
تو سننے والوں کے کانوں سے خون بہتا ہے
تو سننے والوں کے کانوں سے خون بہتا ہے
جہانزیب ساحر
یقین برسوں کا امکان کچھ دنوں کا ہوں
میں تیرے شہر میں مہمان کچھ دنوں کا ہوں
اطہر ناسک
یہ بات اس کو بہت دیر سے ہوئی معلوم
کہ میں تو صرف اسی سے کلام کرتا ہوں
ثروت حسین
یہ آخری چراغ اسی کو بجھانے دو
اس بستی میں وہ سب سے زیادہ حسین ہے
بشیر بدر
یہ کیسی دھند میں ہم تم سفر آغاز کر بیٹھے
تمہیں آنکھیں نہیں ملتیں
ہمیں چہرہ نہیں ملتا
نوشی گیلانی
یوں ہاتھ رکھو ہاتھ پہ میرے کہ میں کہہ دوں
تم آج سے میری ہوئی اور میں ہوں تمہارا
تم آج سے میری ہوئی اور میں ہوں تمہارا
اس نہج پہ ہم لوگ ابھی تک نہیں پہنچے
جس نہج پہ ہوتا ہے محبت میں خسارا
جس نہج پہ ہوتا ہے محبت میں خسارا
معید مرزا
یہ کیسے موڑ پہ آکر مجھے ملا ہے تو
کہ میرے پائوں میں بیڑی، تجھے ہے اذنِ خرام
یہ جس کے قہقہے تم سن رہے ہو
کسی صدمے سے پاگل ہو گیا ہے
یہ بات ابھی مجھ کو بھی معلوم نہیں ہے
پتھر ادھر آتے ہیں-ادھر کیوں نہیں جاتے
یہ میاں اہلِ محبت ہیں۔انہیں کچھ نہ کہو
یہ بڑے لوگ ہیں،بچوں کی طرح سوچتے ہیں
یا ترا تذکرہ کرے ہر شخص
یا کوئی ہم سے گفتگو نہ کرے
یہ ایسا قرض ہے،جو میں ادا کر ہی نہیں سکتا
میں جب تک گھر نہ پہنچوں،ماں مری سجدے میں رہتی ہے
یہ محبت نہ کہیں ردِ عمل بن جائے
ہم ترے بعد کوئی ظلم نہ ڈھانے لگ جائیں
یہ جو مجھ پر کسی اپنے کا گماں ہوتا ہے
مجھ کو ایسا نظر آنے میں بڑی دیر لگی
یہ ایک دل ہی تو میرا آخری ہمدرد
اسے بھی حال بتاتے ہوئے لرزتا ہوں
یہ خوش نظری،خوش نظر آنے کے لئے ہے
اندر کی اداسی کو چھپانے کے لئے ہے
یہ بہت پہنچے
ہوئے لگتے ہیں
ان درٖختوں سے عقیدت ہے مجھے
میں کسی وقت بھی مر سکتا ہوں
دوست!اندر سے محبت ہے مجھے
یوں تو رہے ہو تم بھی صفِ دشمناں میں دوست
لیکن تمہیں شمار نہیں کر رہا ہوں میں
یہ میرا مسئلہ ہے کہ کیسے کروں قیام
پہلے وہ اپنے دل میں اترنے تو دے مجھے
یوں لگتا ہے خلد میں جیسے گھوم رہا ہوں
جب سے اپنی ماں کے پاوَں چوم رہا ہوں
یہ میرے چاروں طرف کس لیے اجالا ہے
تیرا خیال ہے،یا دن نکلنے والا ہے
یہ اثر بھی عشقِ احمد سے زباں میں آ گیا
تیر کو آواز دی،واپس کماں میں آ گیا
yaad ker k mujhy palken nam hu gai hu gi
ReplyDeleteaankh men kuch par gea keh ker ye tala hoga