Thursday, 5 April 2012

"الف" سے بیت بازی(BaitBazi)


ایک تصویر کہ اول نہیں دیکھی جاتی
دیکھ بھی لوں تو مسلسل نہیں دیکھی جاتی
ایسا کچھ ہے بھی نہیں جس سے تجھے بہلاؤں
یہ اداسی بھی مسلسل نہیں دیکھی جاتی
جواد شیخ


اب اس کا کام ہے یہ اضطراب ختم کرے
میں اس کا ہاتھ دل زار تک تو لے آیا


آئندہ گزشتہ صدیوں پر سایہ ہے تریسٹھ برسوں کا
دنیا کی عمر بہت کم ہے یہ قرض ادا کرنے کے لیے
ادریس بابر


اب یہ کس شکل میں ظاہر ہو خدا ہی جانے
رنج ایسا ہے کہ اندر نہیں رہنے والا
میں اسے چھوڑنا چاہوں بھی تو کیسے چھوڑوں
وہ کسی اور کا ہو کر نہیں رہنے والا
جواد شیخ


آرائش خیال بھی ہو دل کشا بھی ہو
وہ درد اب کہاں جسے جی چاہتا بھی ہو
یہ کیا کہ روز ایک سا غم ایک سی امید
اس رنج بے خمار کی اب انتہا بھی ہو
ناصر کاظمی


آو کہیں مل بیٹھیں، کیا ایسا ہو سکتا ہے
ایسا ہو جائے تو موسم اچھا ہو سکتا ہے
سلیم کوثر


آخری کردار مرنا چاہتا ہے
اور اسے مرنے میں دقت ہو رہی ہے
طیب رضا کاظمی


اداس چہرےکی مسکراہٹ سکون دے گی
بچھڑتے لمحوں کو ایک آنسو امر کرے گا
فیضان ہاشمی


اک دیا دل کی روشنی کا سفیر
ہو میسر تو رات بھی دن ہے
اس قدر مت اداس ہو جیسے
یہ محبت کا آخری دن ہے
ادریس بابر


اصرار تھا انہیں کہ بھلا دیجیے ظفر
ہم نے بھلا دیا،تو وہ اس پر بھی خوش نہیں
ظفر اقبال


اب تک کوئی بھی تیر ترازو نہیں ہوا
تبدیل اپنے دل کی جگہ کر رہے ہیں ہم
دل سے گزر رہا ہے کوئی ماتمی جلوس
اور اس کے راستے کو کھلا کر رہے ہیں ہم
ذوالفقار عادل


اب کیا رکھوں بہار سے شنوائی کی امید
کرتے ہوئے گلے کئی موسم گزر گئے
انور شعور


اب لرزتے ہو شاخ پر تنہا
دل جی! کتنا کہا تھا جھڑ جاؤ
میں نے سی وی میں کچھ تو لکھنا ہے
یار!مل جاؤ۔۔۔۔۔یا بچھڑ جاؤ
ادریس بابر


اس کی جانب سے بھی چاہا ہے برابر خود کو
میں نے  یک طرفہ محبت تو کبھی کی ہی نہیں
ادریس بابر


اپنے جذبات میں نغمات رچانے کے لیے
میں نے دھڑکن کی طرح دل میں بسایا ہے تجھے
میں تصور میں بھی جدائی کا بھلا کیسے کروں
میں نے قسمت کی لکیروں سے چرایا ہے تجھے
قتیل شفائی


اگر وہ آپ ہی میرا خیال کرتا نہیں
میں دست شوق کو دست سوال کرتا نہیں
اکبر معصوم


اشک دہلیز پر تھمے رہیں گے
اس کے یکلخت مسکرانے تک
انکار کرو اور بھی خوشبو کا ہماری
تم دیکھ نہیں پاؤ گے مرجھانا ہمارا
عدنان بشیر


اتنی تسکین پس فریاد کہاں ملتی ہے
کوئی مائل بہ سماعت ہے یہ دل جان گیا


اس کے سلوک پر عدیم اپنی حیات و موت ہے
وہ جو ملا تو جی اٹھے،وہ جو نہ ملا تو مر گئے
عدیم ہاشمی


اس سے آگے نہ زمیں ہے نہ زمانہ کوئی اور
اب کہاں تک تری خوشبو سے کنارہ کیے جائیں
شاہین عباس


اگر شرر ہے تو بھڑکے جو پھول ہے تو کھلے
طرح طرح کی طلب تیرے رنگ لب سے ہے


اپنی جگہ سے ہٹ کے دیکھ پھر وہ جگہ پلٹ کے دیکھ
میں جو نہیں تو اب وہاں کیا ہے تیرے خیال میں
ذوالفقار عادل


آخر شب وہ کسی یاد کی آہستہ روی
جیسے رگ رگ میں اترتا چلا جائے کوئی


اس قدر بھی تو نہ جذبات پہ قابو رکھو
تھک گئے ہو تو مرے کاندھے پہ بازو رکھو
افتخار نسیم


اپنی آنکھوں کا یہ پانی دیکھیے اور سوچیے
کون ہے اس غم کا بانی دیکھیے اور سوچیے
شاہین عباس


ابھی تازہ ہے بہت گھاؤ بچھڑ جانے کا
گھیر لیتی ہے تری یاد سر شام ابھی
اک نظر اور ادھر دیکھ مسیحا میرے
ترے بیمار کو آیا نہیں آرام ابھی
عدیم ہاشمی


اکتفا کر لیا بس دیکھتے رہنے پہ تجھے
ورنہ تو جس کا مقدر ہو وہ کیا کچھ نہ کرے
عابد ملک


ایک مدت سے اسے دیکھ رہا ہوں احمد
اور لگتا ہے ابھی ایک جھلک دیکھا ہے
احمد رضوان



اک دن اداسیوں کی دوا ڈھونڈ لیں گے لوگ
ہم لوگ ہوں گے یا نہیں تب تک،نہیں پتہ


اچھا ہے کہ اک نام پہ بھر آتی ہیں آنکھیں
ورنہ تو یہ احساس زیاں تک چلا جائے
ادریس بابر


اب تو درد _ شش بھی سانس کی کوشش میں ہے شریک 
اب کیا ہو ______؟ اب تو نیند کو آ جانا چاہیے
مجید امجد


انھیں بتاؤ کہ لہریں جدا نہیں ہوتیں
یہ کون لوگ ہیں پانی پہ وار کرتے ہوئے


اس ایک نقطے پہ ساری سائنس کھڑی ہوئی ہے
کہ فارمولے خدا کی مرضی سے منسلک ہیں

اک عمر اپنی اپنی جگہ پر کھڑے رہے
اک دوسرے کے خوف سے دیوار اور میں
سرکار ہر درخت سے بنتے نہیں ہیں تخت
قربان آپ پر مرے اوزار اور میں
ذوالفقار عادل


ادھر وہ آخری گاڑی نکلنے والی ہے
کسی نے آخری چائے سے باندھ رکھا ہے


اسے پکار کے شرمندہ ہو گئے ہم لوگ
کہ اس کا نام بهی دل پر غلط لکها ہوا ہے




اس بات کا خیال رکھے جا رہے تھے سب
دل کا مریض ہے اسے صدمہ نہیں ملے
سب گھوم پھر رہے تھے اسی ایک باغ میں
پھر بھی بہت سے دوست دوبارہ نہیں ملے
فیضان ہاشمی


اپنی مرضی سے سب چیزیں گھومتی پھرتی رہتی ہیں
بے ترتیبی نے اِس گھر میں اِتنی جگہ بنا لی ہے
ذوالفقار عادل


اپنے دل میں گیند چھپا کر، ان میں شامل ہوجاتا ہوں
ڈھونڈتے ڈھونڈتے سارے بچے میرے اندر آجاتے ہیں
ذوالفقار عادل


آپ تو ہاتھ ہِلا دیتے ہیں ہاتھ مِلاتے لوگوں کو
آپ سے سُکھ کیا خاک مِلے گا خاک اُڑاتے لوگوں کو
عدنان محسن

اب بھی ہے ویسے کا ویسا وہ شخص
فرق پڑنا بھی نہیں چاہیے تھا
جواد شیخ


اِک شخص یعنی تُجھ سے زیادہ حسیں ملا
سو عذر گھڑ لیے گئے جب تُو نہیں مِلا


ایک کردار کی امید میں بیٹھے ہیں یہ لوگ
جو کہانی میں ہنسانے کے لیے آتا ہے
ذوالفقار عادل


اُگل ڈالے تھے سارے راز پہلی گفتگو میں
اور اُسکے بعد اپنے رابطے کم ہوگئے تھے


اگر کبھی تیرے نام پر جنگ ہوگئی تو
ہم ایسے بزدل بھی پہلی صف میں کھڑے ملیں گے


اس رستے میں پیچھے سے اتنی آوازیں آئیں جمال
ایک جگہ تو گھوم کے رہ گئی ایڑھی  سیدھے پاؤں کی 


اٹھا کر آئینہ پہلے ذرا اپنی طرف دیکھیں
بڑے آئے مرا چاکِ گریباں دیکھنے والے


آئینہ مجھے یاد دلاتا ہے کہ میں ہوں
ورنہ تو مجھے بھول ہی جاتا ہے کہ میں


اڑتے اڑتے ایک مسہری پورب سے جا ٹکرائی
جو بانہوں میں سوئے تھے وہ گلیوں میں بیدار ہوئے


اتنی شدت سے تو برسات بھی کم کم برسے
جس طرح آنکھ تری یاد میں چھم چھم برسے


اتنا شور نہیں بنتا ہے جتنا دونوں کرتی ہیں
ایک طرف یہ پائل تیری ایک طرف زنجیر مری


آپ کو چہرے سے بھی بیمار ہونا چاہیئے
عشق ہے تو عشق کا اظہار ہونا چاہیئے


اب اس کی قسمت کا میرے ہاتھوں سے فیصلہ ہونے جا رہا ہے
اسے تو یہ بھی نہیں پتا اس کے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے
اگر میں دریا کے پاس ہوتے ہوئے بھی پیاسا ہی لوٹ آؤں
تو یہ سمجھنا کہ میرے ہونٹوں سے قرض ادا ہونے جا رہا ہے


ایسا بھی نہیں ہے کہ سہولت سے رہے گا
جو شخص ترے قرب میں قسمت سے رہے گا
میں جا تو رہا ہوں یہ گلی چھوڑ کے لیکن
اک ربط مرا تجھ سے تری چھت سے رہے گا


اگر میں دریا کے پاس ہوتے ہوئے بھی پیاسا ہی لوٹ آؤں
تو یہ سمجھنا کہ میرے ہونٹوں سے قرض ادا ہونے جا رہا ہے
محبتوں کی کہانیوں کا مجھے بھی تھوڑا سا تجربہ ہے
اسی بنا پہ میں کہہ رہا ہوں کہ وہ جدا ہونے جا رہا ہے
معید مرزا


ابھی بھی وقت ہے لگ جاؤ میرے سینے سے
ابھی بھی وقت ہے بادل کہیں نہ چھٹ جائیں
چلو کہ فیصلہ کر لیں کبھی نہ ملنے کا
چلو کہ فیصلہ کر کے پھر اس پہ ڈٹ جائیں
معید مرزا


اٹھاؤ کیمرہ تصویر کھینچ لو میری
اداس لوگ کہاں روز مسکراتے ہیں
نامعلوم

اتنی شّدت سے بھی کیا لوگ کہیں روتے ہیں
جس طرح بیٹھ کے ملبے پہ مکیں روتے ہیں
اشرف یوسفی

اسے نئے در و دیوار بھی نہ روک سکے
وہ اک صدا جو پرانے مکاں سے آتی ہے
احمد مشتاق


‏اسکا میرا ہے عطا سچی ہوس کا رشتہ
میں نے فی الحال اسے عشق بتایا ہوا ہے
احمد عطاءاللہ


اک روایت تھی کہ اس شہر میں اک شخص ہے کم
اس نے ثابت کیا آ کر یہ کمی تھی اس کی
شاہین عباس


اب تو مشکل ہے کسی اور کا ہونا، میرے دوست
تُو مُجھے ایسے ہُوا جیسے کرونا، میرے دوست
(
ا ب)


اچھےلگتےہیں مجھےشورمچاتےبچے
انکوخوش دیکھ کہ لگتاہےکہ دنیاخوش ہے
عباس تابش


اک صدا کھینچ کے کشکول الٹ دیتا ہوں
اور خیرات کسی سمت سے چل پڑتی ہے
نعیم رضابھٹی


آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے
منیر نیازی


اُس نے مجھ سے تو میں نے بدلے میں
جو ملا اس سے بے وفائی کی
احمد فرہاد


اپنی مرضی سے کہاں اپنے سفر کے ہم ہیں
رخ ہواؤں کا جدھر کا ہے ادھر کے ہم ہیں
ندا فاضلی


آگاہ میں چراغ جلاتے ہی ہو گیا
دنیا مرے حساب سے بڑھ کر خراب ہے
جمال احسانی


انتہا کا پتا نہیں کچھ بھی
پیار کی ابتداء ہے خوش رہنا
ایک تو میں نے زندہ رہنا ہے
دوسرا مدعا ہے خوش رہنا
معید مرزا


اس کو یہ لگ رہا ہے بچھڑ کے میں خوش نہیں
اور میں یہ سوچتا ہوں وہ کتنا مزے میں ہے
پہنچا ہوں اس نتیجے پہ دنیا کو دیکھ کر
دیکھے بغیر دنیا کو اندھا مزے میں ہے


اسے میں نفس کے تابع دکھائی دیتا ہوں
مجھے بھی دعویٰ نہیں اس کی پارسائی کا
معید مرزا


آج تو جیسے دن کے ساتھ دل بھی غروب ہو گیا
شام کی چائے بھی گئی موت کے ڈر کے ساتھ ساتھ
ادریس بابر 


اک حد لگا رکھی ہے تعلق کے درمیان
ہر بات اپنے دل کی میں کہتا نہیں اسے
معید مرزا


اس نہج پہ ہم لوگ ابھی تک نہیں پہنچے
جس نہج پہ ہوتا ہے محبت میں خسارا
معید مرزا


آخری آخری لذت ہے ملاقاتوں کی
اب جو بچھڑے تو بچھڑتے ہی چلے جائیں گے
سامنا ہو گا تو پوچھیں گے انوکھا سا سوال
اور وہ ہونٹ لرزتے ہی چلے جائیں گے


 اشک آنکھوں میں کھیلتا ہو گا
چوٹ لگنے سے گر پڑا ہوگا


 انہیں مجھ سے محبت ہو رہی تھی
نہ کھلتی آنکھ تو بس ہو گئی تھی


 اس بے وفا کی یاد دلاتا تھا باربار
کل آئینے پہ ہاتھ اٹھانا پڑا مجھے


اکثر اوقات بھرے شہر کے سناٹے میں
اس قدر زور سے ہنستا ہوں کہ ڈر جاتا ہوں


اتنا تو جانتا ہوں کہ اب تیری آرزو
بےکار کر رہا ہوں اگر کر رہا ہوں میں


 اب اگر ہو ہی گئی ہے تو محبت کے لئے
عمر بھر کا یہ تڑپنا بھی گوارا ہے مجھے


 اب بھی نہ  ہوقبول  تو قسمت کی بات ہے
آمین کہہ رہے ہیں وہ میری دعا کے ساتھ


 آج بھی دھڑکنیں معمول پہ تھیں
یعنی یہ دن بھی رائگاں گزرا


آپ دربار سے بازار میں آ بیٹھے ہیں
آپ سے آپ کی اوقات کہاں پوچھی تھی؟


  اس زمانے میں غنیمت ہے غنیمت ہے میاں
کوئی باہر سے بھی درویش اگر لگتا ہے


 آخری عشق کی حالت ہو تو یہ ہوتا ہے
کوئی منظر بھی نہ ہو اور نظارہ  کئے جائیں


 آپ یوسف ہیں نہ میں مصر کا کوئی تاجر
قیمتِ حسن کے اعداد ذرا کم کیجیئے


آنکھ نے خواب کی لالچ میں خیانت کر لی
ورنہ ہم جاگتی راتوں کے پیمبر ہوتے


 اس کو احساس دلایا ہے تو ملتا ہی نہیں
اجنبی تھا تو مجھے روز ملا کرتا تھا


ایک،دو،تین،چار،پانچ نہیں
میری ساری خطائیں معاف کرو  


اپنے ہی حال پہ ہنسنا،کبھی ہنس کے رونا
میں بیک وقت تماشا بھی،تماشائی بھی


 اس کی آنکھیں سوال کرتی ہیں
میری ہمت جواب دیتی ہے


 ان کے بھی  قتل کا الزام ہمارے سر ہے
جو ہمیں زہر پلاتے ہوئے مر جاتے ہیں


 اس کو دیکھا نہیں کئی دن سے
آنکھ بیکار ہی نہ ہو جائے


 اس کو مدت سے کوئی قیس نہیں ملتا تھا
میری دہلیز پہ صحرا کو ضرورت ٖلائی


 اب کوئی آئے چلا جائے میں خوش رہتا ہوں
اب کسی شخص کی عادت نہیں ہوتی مجھ کو


اس نہیں کا کوئی علاج نہیں
روز کہتے ہیں آپ آج نہیں


 آپ برہم ہی سہی بات تو کر لیں ہم سے
کچھ نہ کہنے سے محبت کا گماں ہوتا ہے


ایک حیرت آدھے چہرے پر مصور دیکھ کر
اس قدر حیراں ہوا،تصویر آدھی رہ گئی



 آشفتگی سے اس کی اسے بے وفا نہ جان 
عادت کی بات اور ہے دل کا برا نہیں


 اس اجنبی سے ہاتھ ملانے کے واسطے
محفل میں سب سے ہاتھ ملانا پڑا مجھے


 ایک انگلی پہ نچاتے تھے زمانے بھر کو
ہم کسی دور میں فنکار ہوا کرتے تھے


اس کی سنجیدگی بتاتی ہے 
اس کو ہنسنے کا شوق تھا پہلے


 ان کو ناموس بھی،عزت بھی،پزیرائی بھی
مجھ کو رونے کو میسر نہیں تنہائی بھی


 اپنے ہی حال پہ ہنسنا،کبھی ہنس کے رونا
میں بیک وقت تماشا بھی،تماشائی بھی


 اب مجھ سے ترا بار اٹھایانہیں جاتا
لیکن یہ مرا عجز ہے،انکار نہیں ہے


 التجا کرتے ہوئے شخص کا قیدی نہیں ہے تو
یہ تیرے پاؤں میں زنجیر نہیں ہے میں ہوں


 اب یہی آخری حل ہے کہ مجھے ڈھال بنا
تیرے پاس اور کوئی تیر نہیں ہے میں ہوں


 ایک مدت سے میری ماں نہیں سوئی تابش
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے


 آنکھ کھلتے ہی اسے دیکھ کے ڈر جاتا ہوں
چاند دیوار پہ رکھا ہوا سر لگتا ہے


 آرزو،پھر آرزو کے بعدخونِ آرزو
ایک فقرے میں بیان ہے داستانِ زندگی


 آنکھیں تمہارے ہاتھ پہ رکھ کر میں چل دیا
اب تم پہ منحصر ہے کہ کب دیکھتا ہوں میں 


 ایسا کرتے ہیں الٹ دیتے ہیں زنبیلِ حیات
اور اس میں سے کوئی کام کا پل ڈھونڈتے ہیں 


 اور کس کس کے ہیں ہم کو نہ بتاؤ ناصح
ہم کو معلوم ہے اتنا وہ ہمارے بھی تو ہیں


 اپنے بارے میں وہ اک بات جو ہوتی نہیں تھی
تیری آواز میں آواز ملانے سے ہوئی


 اب تو دریا میں بندھے بیٹھے ہیں دریا کی طرح
اب کناروں کی طرف دھیان کہاں جاتاہے


 ایسی ویرانی میں کرتے بھی تو کیا 
یہ بھی کچھ کم ہے کہ وحشت کی ہے


 اس کے سوا کوئی مجھے آزار نہیں ہے
جو مجھ کو میسر ہےوہ  درکار نہیں ہے


 اتنا تو جانتا ہوں کہ اب تیری آرزو
بے کار کر رہا ہوں اگر کر رہا ہوں میں 


 اس نے کہاکہ پھول سے تتلی اڑائیے
اتنی سی بات پر میں پریشان ہو گیا


 اب یاد نہیں ہے کہ کیا فیصلہ تھا وہ
جس کے سبب میں پریشان ہو گیا


 ایسا پلٹ کے دیکھا تھا اس نے مری طرف
پورا شکستِ ذات کا تاوان ہو گیا


اب دیکھتا ہوں راہ میں دنیا سجی ہوئی
اب تیرا انتظار نہیں کر رہا ہوں میں


 اک لہر مجھے کھینچ کے لے آئی  بھنور میں 
وہ لہر، جسے میں نے کنارے سے اٹھایا 


 اٹھائے پھرتا رہا میں بہت محبت کو
پھر اک دن یونہی سوچا یہ کیا مصیبت ہے


 اس عمر میں میں بھی بالکل ایسا تھا 
ڈر لگتا ہے مجھ کو اپنے بیٹے سے


 اداسیاں جو نہ لاتے تو اور کیا کرتے
نہ جشنِ شعلہ مناتے تو اور کیا کرتے


 اندھیرا مانگنے آیا تھا روشنی کی بھیک 
ہم اپنا گھر نہ جلاتے تو اور کیا کرتے


اپنی تصویر کو آنکھوں سے لگاتا کیا ہے
اک نظر میری طرف بھی ترا جاتا کیا ہے
تو مرا کچھ نہیں لگتا مگر اتنا تو بتا
دیکھ کے مجھ کو ترے ذہن میں آتا کیا ہے


 اک نقش ہو نہ پائے اِدھر سے أدھر مرا
جیسا تمہیں ملا تھا میں ویسا جدا کرو


 احساس ہی نہیں تھا کہ تنہا ہوں آج کل
تو نے سوال چھیڑ کے اچھا نہیں کیا


 ایک تو خواب لیے پھرتے ہو گلیوں گلیوں
اس پہ تکرار بھی کرتے ہو خریدار کے ساتھ


 ابھی میں  کے دیکھ آیا ہوں اس کی آنکھوں کو
تمہارے شہر میں سیلاب آنے والا ہے


 اگر وہ پوچھ لیں ہم سے تمہیں کس بات کا غم ہے
تو پھر کس بات کا غم ہے،اگر وہ پوچھ لیں ہم سے؟


اب ملاقات میں وہ گرمیَ جذبات کہاں
اب تو رکھنے وہ محبت کا بھرم آتے ہیں 


 اب ذرا تفصیل سے اے قاصدِ خوش رو بتا
اس نے پہلے کیا کہا،پھر کیا کہا،پھر کیا کہا


 اس لیے کوئی زیادہ نہیں رکتا ہے یہاں
لوگ کہتے ہیں مرے دل پہ ترا سایہ ہے


 آنگن میں گھنے پیڑ کے نیچے تری یادیں
میلہ سا لگا دیتی ہیں،اچھا نہیں کرتیں


 افلاس نے بچوں کوبھی تہذیب سکھا دی
سہمے ہوئے بیٹھے ہیں، شرارت نہیں کرتے


اپنی تکمیل کر رہا ہوں میں 
ورنہ تجھ سے تو مجھ کو پیار نہیں


 ایک مبحت اور وہ بھی ناکام محبت
لیکن اس سے کام چلایا جا سکتا ہے


 الفت کا نشہ جب کوئی مر جائے تو جائے
یہ دردِ سر ایسا ہے کہ سر جائے تو جائے


 اب آگئے ہو تو بیٹھو وفا کی بات کریں
وفا کی بات میں ہر بے وفا سے کرتا ہوں


 اے کہ دیوار ترے اذن سے در ہو جائے
مجھ خطا کار پہ بھی اک نظر ہو جائے


 اس قبیلے سے نہیں میں کہ جو اپنی لڑکی
جنگ کے خوف سے دشمن کے حوالے کر دے


 اب مجھ میں وضاحت کی ذرا تاب نہیں
اب تجھ سے مرا دیدہَ تر بات کرے گا


 ایک تم ہی نہ مل سکے ورنہ
ملنے والے بچھڑ بچھڑ کے ملے


 اذیتوں کے تمام نشتر مری رگوں میں اتار کر وہ
بڑی محبت سے پوچھتا ہے،تمہاری آنکھوں کو کیا ہوا ہے


 اک حقیقت سہی فردوس میں حوروں کا وجود
حسنِ انساں سے نمٹ لوں تو وہاں تک دیکھوں


 اتنا بے تاب نہ ہو مجھ سے بچھڑنے کےلے
تجھ کو آنکھوں سے نہیں دل سے جدا کرنا ہے


 اک عمر سے جیسے نہ جنوں ہے نہ سکوں ہے
یا رب کوئی گردش مرے حالات میں آئے


 آشفتگی سے اس کی اسے بے وفا نہ جان
عادت کی بات اور ہے،دل کا برا نہیں


 آئینہ دیکھ کے بولے یہ سنورنے والے
اب تو بے موت مریں گے مرے مرنے والے


 آپ برہم ہی سہی بات تو کر لیں ہم سے
کچھ نہ کہنے سے محبت کا گماں ہوتا ہے


 آپ کے پاوَں کے نیچے دل ہے
اک ذرا آپ کو زحمت ہو گی


 اس کو دیکھا نہیں کئی دن سے
آنکھ بےکار ہی نہ ہو جائے


 ان آنکھوں کی سیوا کر کے ہم نے جادو سیکھ لیا
جب بھی طبیعت گھبراتی ہے پتھر کے ہو جاتے ہیں



7 comments:

  1. بہترین پیشکش ہے ، لیکن نستعلیق فونٹ کی کمی محسوس ہو رہی ہے۔شاد رہیے۔

    ReplyDelete
  2. السلام علیکم ایمن تسی گریٹ او میں بھی شیئر کرنا چاہتا ہوں پر لائٹ کا بڑا مسئلہ ہے۔اوقات والے شعر کا جواب ضرور دینا چاہوں گا۔ یہ کیسے کم ظرف غبارے ہیں جو اک سانس میں پھول جاتے ہیں ۔۔۔ ذرا سی ہوا کیا لگی اپنی اوقات بھول جاتے ۃیں

    ReplyDelete
    Replies
    1. Walaikum Asslam! Thanku! Wah khoob hay.

      Delete
    2. Thumbs Up for the effort. Would go a long way toward enhancing the collection of upcoming as well as current 'Bait Bazzes'!!

      Delete
  3. apni duaon men mujhy mangty hen woh
    or yeh b mangty hen k koi mangta na ho

    ReplyDelete
  4. AAP K AIK SHAIR KE TASHEE CHAHTA HUN

    MUFLASI NAY BACHOON KU BHE SANJEEDGI BAKHSHI
    SEHMAY HUAY REHTAY HAIN SHRARAT NAHI KARTAY

    ReplyDelete