نکلا ہوں شہرِ خواب سے، ایسے عجیب حال میں
غرب، میرے جنوب میں، شرق، مرے شمال میں
غرب، میرے جنوب میں، شرق، مرے شمال میں
ذوالفقار عادل
نظر نظر ہو پر
اتنی بھی بے پناہ نہ ہو
بہار آئی تو
ہم نے خزاں کو دیکھ لیا
خورشید رضوی
نہ تیرنے کے
ہنر سے واقف نہ ہم ہیں پختہ سفینے والے
تیری شفاعت کے
آسرے پر رواں دواں ہیں مدینے والے
درود گوئی کا
سلسلہ تو فقط بہانہ بنا ہوا ہے
اکٹھے ہوتے
ہیں روز جام رخ منور کو پینے والے
اظہر فراغ
نیند ہو نبض
میں بھٹکتی ہوئی
خواب۔۔۔۔جو
زندگی سے بہتر ہو
رات ہو اور
بات چلتی رہے
رات ہو اور
زندگی بھر ہو
نصر اللہ حارث
ناصحا! تجھ کو
خبر کیا کہ محبت کیا ہے
روز آ جاتا ہے
سمجھاتا ہے،یوں ہے،یوں ہے
احمد فراز
نہیں ہے وجہ
ضروری کہ جب ہو،تب مر جائیں
اداس لوگ
ہیں،ممکن ہے بے سبب مر جائیں
عمیر نجمی
نہ وہ حسین نہ
میں خوبرو مگر اک ساتھ
ہمیں جو دیکھ
لے وہ دیکھتا ہی رہ جائے
نہ جانے کون سی مجبور یاں پردیس لائی تھیں
وہ جتنی دیر تک زندہ رہا گھر یاد کرتا تھا
منور رانا
نامے پڑھ پڑھ کے جب آیا اسے نامے پڑھنا
اس کے نزدیک مری ڈاک جوابی
نہ رہی
نئے لڑکو تمہیں معلوم نہیں
ہے شاید
قیس نے عشق کیا تم نے
اداکاری کی
نئے سالار سے زنداں میں بچے
پوچھتے ہیں
ہمارے شہر کے فاتح، ہمارا
کیا بنے گا
نام ہی کیا نشاں ہی کیا،
خواب و خیال ہوگئے
تیری مثال دے کے ہم تیری
مثال ہوگئے
نئے امیروں کے گھر بھول کے
بھی مت جانا
ہر ایک چیز کی قیمت بتانے
لگتے ہیں
نوکری شاعری گھر بار زمانہ
قدریں
اک محبت ہی کا آزار نہیں
ہوتا یار
نا شنایانِ سخن اب تو معافی
دے دو
اب تو غالب کا تعلق نہیں
دربار کے ساتھ
ناراض ہیں؟ تو جائیے لیکن یہ شرط ہے
ہم سے نہ بولیے تو کسی سے نہ بولیے
نامعلوم
نیزے پہ رکھ کے اور مرا سر بلند کر
دُنیا کو اک چراغ تو جلتا دکھائی دے
دُنیا کو اک چراغ تو جلتا دکھائی دے
ظفر گورکھپوری
نیم خوابیدہ سی آنکھیں آخر شب کی تھکن
کچھ ادھورے رتجگے ہیں ناشتے کی میز پر
افتخارحیدر
نیند کی گولیوں سے کچھ نہ ہوا
موت کی گولیاں بنائے کوئی
ردا زینب شاہ
نہیں ہے فائدہ تم کو مری کمائی کا
نکال لوں گا کوئی حل میں اس لڑائی کا
نکال لوں گا کوئی حل میں اس لڑائی کا
کوئی ضروری نہیں ہر سڑک کشادہ ہو
سو ذہن ملتا نہیں مجھ سے میرے بھائی کا
سو ذہن ملتا نہیں مجھ سے میرے بھائی کا
معید مرزا
نازک مزاج ہیں وہ پری رخ کچھ اس قدر
پائل جو پہنی پا میں تو چھم چھم سے ڈر گئے
نہ وہ حسین،نہ میں خوبرو،مگر اک ساتھ
ہمیں جو دیکھے
تو وہ دیکھتا ہی رہ جائے
نہ طنز کر کہ کئی بار کہہ چکا تجھ سے
وہ میری پہلی
محبت تو میرا ماضی تھا
نظر آئے تو اسے دیکھتے رہنا کہ وہ شخص
خواب ہے اور مکرر نہیں ہونے والا
نازک تیرے مریضِ
محبت کا حال ہے
دن کٹ گیا تو رات کا کٹنا محال ہے
نہ بک سکی بازارِ مصلحت میں کبھی
میری زباں کی صداقت
میری انا کی طرح
نہ آنکھوں میں آنسو نہ لب پر ہنسی ہے
تری زندگی بھی
کوئی زندگی ہے
نا کامِ عشق ہوں
سو میرا دیکھنا بھی دیکھ
کم دیکھتا ہوں
اور غضب دیکھتا ہوں میں
نا سمجھ جہاں
والے کیا بھلا یہ سمجھیں گے
عشق بھی جو کرتے ہیں سیکھ کر کتابوں سے
نہ کوئی شعر،نہ کوئی غزل،نہ نام تیرا
قلم کی نوک پہ کیسا سکوت طاری ہے
نہ میں اپنا ہوں،نہ تیرا ہوں،نہ اس دنیا کا
میں فقط عشق ہوں،رہتا ہوں پری خانوں میں
نہ گل کھلے ہیں،نہ ان سے ملے،نہ مے پی ہے
عجیب رنگ میں اب کہ بہار گزری ہے
نہ کمالِ عہدِ
شباب ہے،نہ حصولِ حسن و جمال ہے
تمہیں دل نواز بنا دیا،یہ مری نظر کا کمال ہے
نئی منزلوں کی تلاش تھی سو بچھڑ گئے
میں بچھڑ کے تجھ
سے بھٹک گیا ترا کیا بنا
نہ اپنا نام،نہ چہرہ بدل کے آیا ہوں
کہ اب کی بار
میں رستہ بدل کے آیا ہوں
نکل کر بند کمرے سے ذرا بازار میں آوَ
اگر تم دیکھنا چاہو تماشا ہو بھی سکتا ہے
نہیں پتھر نہیں مجھ پہ دھکتی آگ برساوَ
مرا یہ جرم ہے میں روشنی کا ساتھ دیتا ہوں
نہیں مصروف میں اتنا کہ گھر کا راستہ بھولوں
نہ ہو جب منتظر کوئی،تو گھر اچھے نہیں لگتے
نہیں ہے کوئی بھی منزل اگر مری منزل
تو پھر یہ پاوَں تلے راستے کہاں کے ہیں
نہیں بھی ہوں تو دیواروں میں دروازے بنا دیں
فصیلِ شہر پر جو سحر گر بیٹھےہوئے ہیں
نگاہیں میرے گرد
آلود چہرے پر ہیں دنیا کی
جو پوشیدہ ہے باطن میں وہ جوہر کون دیکھے گا
نظر انداز کرنے کی سزا دینا تھی تجھ کو
ترے دل کیں اتر جانا ضروری ہو گیا تھا
نہیں مروں گاکسی جنگ میں یہ سوچ لیا
میں اب کی بار محبت میں مارا جاوَں گا
نشے کی طرح محبت
بھی ترک ہوتی نہیں
جو ایک بار کرے گا،وہ بار بار کرے گا
ناصحا! تجھ کو خبر کیا کہ محبت کیا ہے
روز آ جاتا ہے،سمجھاتا ہے،یوں ہے،یوں ہے
نامہ گیا کوئی،نہ کوئی نامہ بر گیا
ان کی خبر نہ آئی،زمانہ گزر گیا
نامہ تو ہم نے بھیجا ہے اس صبا کے ہاتھ
اب دیکھیئے لگے نہ لگے آشنا کے ہاتھ
نامہ بر حال مرا ان سے زبانی کہنا
خط نہ دینا کہ وہ اوروں کو دکھا دیتے ہیں
نامہ بر کھل کے بتا،کر نہ خبر کے ٹکڑے
ہوئے جاتے ہیں،ادھر جاں کے جگر کےٹکڑے
نہیں نہیں یہ خبر دشمنوں نے دی ہو گی
وہ آئے،آ کے چلے بھی گئے،ملے بھی نہیں
na kaleem sy shikayat na in waizoon sy keena
ReplyDeletewohi toor-o-khuld ly len mujhy chor den Madina
کمال
DeleteBest collecting
ReplyDeleteاعلی
ReplyDelete