Thursday, 5 April 2012

"ط"سے بیت بازی(BaitBazi)


طوفانوں میں پودوں اور پرندوں کو
جھک جانے کی عادت زندہ رکھتی ہے


طعنہ دیتے ہیں مجھ کو جینے کا
زندگی میری خطا ہو جیسے


طعنہ زن تھا ہر کوئی ہم پر دلِ ناداں سمیت
ہم نے چھوڑا شہرِ رسوائی درِ جاناں سمیت


طور پر گئے تھے ہم آپ کو ڈھونڈنے مگر
کثرتِ احتیاط سے کام خراب ہو گیا


طلب زاروں پہ کیا بیتی،صنم خانوں پہ کیا بیتی
دلِ زنداں تیرے مرحوم ارمانوں پہ کیا بیتی؟


طعنہ زن کیوں ہے میری بے سروسامانی پر
اک نظر ڈال ذرا شہر کی ویرانی پر


طعنِ اغیار سنیں آپ خموشی سے شکیب
خود پلٹ جاتی ہے ٹکرا کے صدا پتھر سے


طبیعت آدمی کی اس کی اصلی ذات ہوتی ہے
اسی سے جیت ہوتی ہے اسی سے مات ہوتی ہے


طولِ غمِ حیات سے گھبرا نہ اے جگر
ایسی بھی کوئی رات ہے جس کی سحر نہ ہو


طلب کو تو نہ ملے گا تو اور لوگ بہت 
کسی طرف تو یہ طوفاں بھی موڑنا ہوگا


طوفاں کی طرح زور میں اٹھتا تو ہوں لیکن
لہروں کی طرح مجھ کو بکھرنا نہیں آتا

No comments:

Post a Comment