ثبوت ہے یہ محبت کی
سادہ لوحی کا
جب اس نے وعدہ کیا،میں نے
اعتبار کیا
ثبوت دوں گا تجھے میں
وفاوَں کا اپنی
ذرا سا گردشِ دوراں سکوں تو
لینے دے
ثابت ہوا کہ مجھ سے
محبت نہیں رہی
وہ شخص مجھ کو دیکھ کر
آنکھیں چرا گیا
ٖثروت و عیش کے
ایوانوں میں اکثر ہم نے
سسکیاں لیتے ہوئے دیکھا ہے
انسانوں کو
ثابت ہوا فشارِ لحد
سےیہ اے زمین
تو بھی انہیں دباتی ہے،جن
میں کہ دم نہیں
ثا بت بڑی توقیر ہے
اس ضبطِ وفا میں
ہر اشک جو آنکھوں سے نہ ٹپکے
وہ گہر ہے
بہت عمدہ
ReplyDeleteشعر کے ساتھ شاعر کا نام بھی ہوتا تو بہتر ہے
ReplyDeleteبہتر ہے بہت شکریہ لیکن شاعر کا نام بھی ہوتا تو زیادہ بہتر ہوتا
ReplyDelete