خود اپنے ہاتھ کی ہیبت سے کانپ جاتا ہوں
کبھی کبھی کسی دشمن پہ وار کرتے ہوئے
خیال ترک محبت
تو بار بار آیا
مجال ترک محبت
نہ ایک بار ہوئی
وحشت رضا علی
کلکتوی
خوشبو کا رنگ
اور ہے باد صبا کا اور ہے
جیسے یہ
دیکھتی بھی ہو،جیسے یہ دیکھتی نہ ہو
سوتا ہوں شب گزار
کے،اٹھتا ہوں دن اتار کے
جیسے کوئی بھی
دکھ نہ ہو، جیسے کوئی خوشی نہ ہو
خود بھی کچھ
کم نہیں میں اپنی تباہی کے لیے
دوستوں سے
مجھے امداد بھی آ جاتی ہے
رونا ہوتا ہے
کسی اور حوالے سے مجھے
اور ایسے میں
تیری یاد بھی آ جاتی ہے
خواہشیں توڑ
نہ دیں تیرے سینے کا قفس
اتنے شہ زور
پرندوں کو گرفتار نہ رکھ
عرفان صدیقی
خود اپنے آپ
کو پرکھا تو یہ ندامت ہے
کہ اب کبھی
اسے الزام بے وفائی نہ دوں
مری بقا ہی
مری خواہش گناہ میں ہے
میں زندگی کو
کبھی زہر پارسائی نہ دوں
احمد فراز
خود تمہاری
جگہ جا کے دیکھا ہے اور
خود سے کی ہے
تمہاری جگہ معذرت
ذوالفقار عادل
خیال اچھا ہوا تو شعر بن کر
آے گا باہر
بہت اچھا ہوا تو دل کے اندر بیٹھ جاے گا
شجاع خاور
بہت اچھا ہوا تو دل کے اندر بیٹھ جاے گا
شجاع خاور
خوش دلی اور ہے اور عشق کا آزار کچھ اور
پیار ہو جائے تو اِقرار .........نہیں ہوتا یار
خدا سے سانس کی بیماری کا گلہ نہ کرے
شجر کی ٹہنیاں کاٹی ہوں جس نے آرے سے
خودی پر مان اتنا ہے کبھی مڑ
کر نہیں دیکھا
جسے کہہ دوں کہ میرا ہے،اسے
ہونا ہی پڑتا ہے
خود سے فرصت ہی میسر نہیں آئی ورنہ
ہم کسی اور کے ہوتے تو
تمہارے ہوتے
خط کے ٹکڑے ہیں دست قاصد میں
ایک کے سو جواب لایا ہے
خدا کی راہ میں جو مر گیا
شہید ہے
جناب!راہِ خدا آپ کو ملی کہ
نہیں؟
خمار آلودہ نظروں کی ہر اک
جنبش،اک افسانہ
الٰہی! ہم انہیں دیکھیں کہ
ان کا دیکھنا دیکھیں
خدا کے واسطے نظروں سے میری
ہٹ جائیں
مرے دماغ کی ساری رگیں نہ پھٹ جائیں
مرے دماغ کی ساری رگیں نہ پھٹ جائیں
خوش نہ رہنے کے مسئلے ہیں
بہت
میری دل سے دعا ہے خوش رہنا
میری دل سے دعا ہے خوش رہنا
انتہا کا پتا نہیں کچھ بھی
پیار کی ابتداء ہے خوش رہنا
پیار کی ابتداء ہے خوش رہنا
معید مرزا
خدا نے، آج سے پہلے، یہ سنتے
آئے ہیں
محبتوں میں بہت استقام رکھا تھا
محبتوں میں بہت استقام رکھا تھا
No comments:
Post a Comment