کیونکر سخن آغاز کیا جائے کہ وہ آنکھ
لا رکھتی ہے اجداد کا لکھا مرے آگے
کہہ دیتا ہوں
ویسے میرا کہنا نہیں بنتا
اس دل کے
علاوہ تیرا رہنا نہیں بنتا
تم ہی کہو،ان
آنکھوں کی،ان ہونٹوں کی خاطر
دنیا کی ہر اک
بات کو سہنا نہیں بنتا؟
ادریس بابر
کوئی بھی چیز
اضافی نہیں ہمارے پاس
بس ایک دکھ جو
ضرورت سے کچھ زیادہ ہے
میں جانتا تو
نہیں تجھ سے کیا تعلق ہے
مگر یہ طے ہے
محبت سے کچھ زیادہ ہے
جہانزیب ساحر
کہیں لکھا ہو
مرے ہاتھ سے نہ خوں اس کا
بہت دمکتا ہے
رخسار لالہ گوں اس کا
اسے کہو کہ
بہت نامراد شے ہے جنوں
اسے کہو کہ
مجھے ہے بہت جنوں اس کا
افضال احمد
سید
کسی شے کی
نہیں کوئی تلافی،بس معافی
صدائے اشک و
خوں ہے بس معافی بس معافی
ہمیں پر بارِ
عہد اولیں تھا بادشاہا
ہمیں سے ہو
گئی وعدہ خلافی،بس معافی
حمیدہ شاہین
کسی کے خواب
کوئی دوسرا نہ لے جائے
بچھڑتے وقت
بڑی احتیاط کرتے ہیں
لطیف ساجد
کسی کا پھول
سا چہرہ اور اس پر رنگ افروز
گندھے ہوئے بہ
خم گیسواں،گلاب کے پھول
خیال یار،ترے
سلسلے نشوں کی رتیں
جمال یار تری
جھلکیاں گلاب کے پھول
مجید امجد
کہیں پہ رک کے
لپٹ جائیں اک دوجے سے
سفر تمام نہ
ہو جائے باتوں باتوں میں
نذیر قیصر
کس کو ٹھہرایئے ٹوٹی ہوئی
چیزوں کا امیں
اپنی لُکنت کا سبب کس کی زبانی کہیے
اپنی لُکنت کا سبب کس کی زبانی کہیے
ذوالفقار عادل
کسی کو گھر ملا حصے میں یا
کوئی دکاں آئی
میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی
منور رانا
میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی
منور رانا
کھینچ لوں جب بھی نئے طرز کے
نقشوں کا خط
اک نئی جستجو کی سمت نکل پڑتا ہوں
محمد اظہار حسین
اک نئی جستجو کی سمت نکل پڑتا ہوں
محمد اظہار حسین
کوئی اتنے قریب سے گزرا
دور تک دیکھنا پڑا ہے مجھے
دور تک دیکھنا پڑا ہے مجھے
ذوالفقار عادل
کچھ لوگ اس لئے بھی ترے ساتھ
ساتھ ہیں
تو گر پڑے تو تھام کر احسان کر سکیں
تو گر پڑے تو تھام کر احسان کر سکیں
کاشف غلام رسول
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز اِک چیز ٹوٹ جاتی ہے
روز اِک چیز ٹوٹ جاتی ہے
جون ایلیاء
کہیں پہ جھمکا کہیں پہ بالی پڑی ہوئی تھی
وہ کس تکلف میں حسن والی پڑی ہوئی تھی
ہماری قسمت ہماری سوچوں پہ
رو رہی تھی ،
ہمارے کھیتوں میں خشک سالی پڑی ہوئی تھی
ہمارے کھیتوں میں خشک سالی پڑی ہوئی تھی
کل اک دوست کو اپنا حال
سنایا تھا
اس نے مجھے تمھارا نمبر بھیجا ہے
اس نے مجھے تمھارا نمبر بھیجا ہے
زاہد بشیر
کچھ اہلِ عشق بھی ہیں طبیئت کے کشتنی
کچھ اہلِ حسن بھی بڑے خونریز لوگ ہیں
کوئی نہر تھی نہ درخت تھا، یہ کئی زمانوں سے دشت تھا
یہاں شہر بستے چلے گئے مرے دل میں تیرے قیام سے
کوئی ضروری نہیں ہر سڑک کشادہ ہو
سو ذہن ملتا نہیں مجھ سے میرے بھائی کا
ہم ایک ہاتھ کی دوری پہ رہنے
والے لوگ
ازل سے بوجھ اٹھاتے ہیں نارسائی کا
ازل سے بوجھ اٹھاتے ہیں نارسائی کا
معید مرزا
کبھی جو شدتِ محرومی میں تمہارے بعد
کسی سے لپٹیں تو وہ کاش بد لحاظ نہ ہو
میں چاہتا ہوں عشق ہو مگر بجھا ہوا سا عشق
چراغ چاہتا تو ہے ہوا مگر رکی ہوئی
کاشف غلام رسول
کچھ لوگ اس لیے بھی ترے ساتھ ساتھ ہیں
تو گِر پڑے تو تھام کر احسان کر سکیں
کاشف غلام رسول
کوئی تو روئے لپٹ کر جوان لاشوں سے
اسی لیے تو وہ بیٹوں کو مائیں دیتا ہے
خالد احمد
کوئی بھی شکل میرے دل میں
اتر سکتی ہے
اک رفاقت میں کہاں عمر گزر سکتی ہے
اک رفاقت میں کہاں عمر گزر سکتی ہے
تجھ سے کچھہ اور تعلق بھی
ضروری ہے میرا
یہ محبت تو کسی وقت بھی مر سکتی ہے
یہ محبت تو کسی وقت بھی مر سکتی ہے
مری خواہش ہے كہ پھولوں سے
تجھے فتح کروں
ورنہ یہ کام تو تلوار بھی كر سکتی ہے
ورنہ یہ کام تو تلوار بھی كر سکتی ہے
(اظہر فراغ)
کسی کے ساتھ اُس کو دیکھنے کا دکھ الگ ہے
میں خوش ہوں, وہ , اُسے مجھ سے زیادہ چاہتا ہے
رانا عامر لیاقت
کہہ دیتا ہوں، ویسے میرا کہنا نہیں بنتا
اس دل کے علاوہ تیرا رہنا نہیں بنتا
ادریس بابر
کہانی کارو پتا لگاؤ تم اِس
دِشا میں سفر سے پہلے
کہ ان پہاڑوں میں کون رہتا تھا سامری جادوگر سے پہلے
کہ ان پہاڑوں میں کون رہتا تھا سامری جادوگر سے پہلے
یہ اڑتی اڑتی خبر ملی ہے کہ
فوجیں بارڈر پہ آ رہی ہیں
اُڑا کے دیکھیں گے ہم بھی کچھ فاختاؤں کو اپنے گھر سے پہلے
اُڑا کے دیکھیں گے ہم بھی کچھ فاختاؤں کو اپنے گھر سے پہلے
معید مرزا
کسی کے ماتھے پہ تھوڑی لکھا
ہے کون سچا ہے کون جھوٹا
خدا کے بندے پرکھ تو لیتے کسی کو عرضِ ہنر سے پہلے
خدا کے بندے پرکھ تو لیتے کسی کو عرضِ ہنر سے پہلے
معید مرزا
کوئی بتلائے کہ اک عمر کا
بچھڑا محبوب
اتفاقاّ کہیں مل جائے تو کیا
کہتے ہیں؟
کوئی مجبوریاں نہیں ہوتیں
لوگ یونہی وفا نہیں کرتے
کوئی تعویز ہو ردِ بلا کا
میرے پیچھے محبت پڑ گئ ہے
کس قدر اہتمام کرتے ہو
دل دکھانا ثواب ہو جیسے
کسی کو گھر ملا حصے میں یا
کوئی دکاں آئی
میں گھر میں سب سے چھوٹا
تھا،میرے حصے میں ماں آئی
کر کر کے منتیں تیری عادت بگاڑ دی
دانستہ ہم نے تجھ کو
ستم گر بنا دیا
کھلونوں کی جگہ دل ٹوٹا ہے
کہ گڑیا اب بڑی ہونے لگی آئی
کبھی کبھی وہ مجھے اتنا یاد آتا
ہے
میں ضد میں آ کے اسے یاد بھی
نہیں کرتا
کبھی یک بیک توجہ،کبھی بے سبب
تکلف
کوئی آزما رہا ہے،مجھے رخ بدل
بدل کر
کھینچتی ہے مجھے رہ رہ کے محبت
اس کی
جیسے فانی کو فنا اپنی طرف
کھینچتی ہے
کر گئی جھیل مجھے امن پسندی
میری
بستیاں میں بھی ڈبو تا تو سمندر
ہوتا
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا
ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں
آتا
کون جانے کہ نئے سال میں تو کس
کو پڑھے
تیرا معیار بدلتا ہے نصابوں کی
طرح
کل شب دلِ آوارہ کو سینے سے
نکالا
یہ آخری کافر بھی مدینے سے
نکالا
کس طرح لوگ چلے جاتے ہیں اٹھ کر
چپ چاپ
ہم تو یہ دھیان میں لاتے ہوئے
مر جاتے ہیں
کیا لوگ تھے کہ جو غمِ جاناں
میں مر مٹے
اے روزگار کیوں تیری گردش نہ
تھم گئی
کہیں صحرا کہیں سوکھے شجر اچھے
نہیں لگتے
مجھے اب خواب زاروں کے سفر اچھے
نہیں لگتے
وفاوَں کا بھرم ٹوٹے تو کیوں
زندہ رہے کوئی
کہ جب دستار گر جائے تو سر اچھے
نہیں لگتے
کیسے مر مر کے گزاری ہےتمہیں
کیا معلوم
رات بھر تاروں بھری رات پہ رونا
آیا
کیسے جیتے ہیں یہ کس طرح جیَے
جاتے ہیں
اہلِ دل کی بسر اوقات پہ رونا
آیا
very nice
ReplyDelete