میں اس کے دل میں گھر کرنے
کا چارہ کرچکا تھا
پر اس کوٹھی کو اب دفتر بنایا جا رہا ہے
پر اس کوٹھی کو اب دفتر بنایا جا رہا ہے
میرے ساتھ
کہاں تک چل سکتا ہے کوئی
اک حد تک تو
یہ تنہائی جا سکتی ہے
مہکے تھے چراغ
اور دہک اٹھی تھیں گلیاں
گو سب کو خبر
تھی اسے آنا ہی نہیں تھا
دیوار پہ
وعدوں کی امر بیل چڑھا دی
رخصت کے لیے
اور بہانہ ہی نہیں تھا
غلام محمد
قاصر
مسکرا کر کسی
کی رہ روکوں
اور چیخوں کہ
میں اکیلا ہوں
ادریس بابر
مجھے کمی نہیں
ہوتی کبھی محبت میں
یہ میرا رزق
ہے اور آسماں سے آتا ہے
عرفان صدیقی
میں اسے
چھوڑنا چاہوں بھی تو کیسے چھوڑوں
وہ کسی اور کا
ہو کر نہیں رہنے والا
جواد شیخ
میں تصور میں
بھی جدائی کا بھلا کیسے کروں
میں نے قسمت
کی لکیروں سے چرایا ہے تجھے
قتیل شفائی
میں سامنے سے
اٹھا اور لو لرزنے لگی
چراغ جیسے
کوئی نئی بات کرنے والا تھا
میں اس زمیں
پر تجھے چاہنے کو زندہ ہوں
مجھے قبول نہیں
بے جواز ہو جانا
میں خوش ہوں
اس کے نکالنے پر اور اتنا آگے نکل چکا ہوں
کہ اب اچانک
سے اس نے بلا لیا تو برا لگے گا
یہ آخری
کپکپاتا جملہ کہ "اس تعلق کو ختم کر دو"
بڑے جتن سے
کہا ہے اس نے، نہیں کیا تو برا لگے گا
میں اگر اس کی
طرف دیکھ رہا ہوں تو ظفر
اپنے حصے کی
محبت کے لیے دیکھتا ہوں
ظفر اقبال
میرے عجیب
سوالوں کا فائدہ تو ہوا
پتہ چلا کہ
اسے مسکرانا آتا ہے
چھلک نہ جائے
مرا رنج مری آنکھوں سے
تمھیں تو اپنی
خوشی کو چھپانا آتا ہے
ادریس بابر
مجھے رونے کی عادت پڑ گئ ہے
میں دیکھو ہنستے ہنستے رو
پڑا ہوں
مگر یہ طے ہے کہ جو ایک بار ہم
سے ملے
کسی کا ہو بھی گیا ہو۔ ہمارا
ہوتا ہے۔
مسکرا کر کسی کی رہ روکوں
اور چیخوں کہ میں اکیلا ہوں
اور چیخوں کہ میں اکیلا ہوں
ادریس بابر
میں اپنے ابو کے نام کی لاج
رکھ رہا ہوں
وگرنہ لڑکی بھگانا صدیوں سے چل رہا ہے
وگرنہ لڑکی بھگانا صدیوں سے چل رہا ہے
میں چاہتا ہوں ایک ہو بس ایک ہم سفر
ایسا جو میرے دل کى طرح بد زباں نہ ہو
مجھ کو اس شخص کے افلاس پہ
رحم آتا ہے
جس کو ہر چیز ملی، صرف محبّت نہ ملی
جس کو ہر چیز ملی، صرف محبّت نہ ملی
احمد ندیم قاسمی
منتشر چلیے کہ یوں بازار بھر جاتا تو ہے
مُشتہر کیجے کہ پھر اچھا گزر جاتا ہے دن
شاہین عباس
مُصحفِ دل کی واحد شرط، اصیل
بنو
کُفر کرو تو اِیمانوں پر
دھیان نہ دو
شناور اسحاق
مجھے انتظار تھا شام سے، میں
بھرا ہوا تھا کلام سے
مری اپنے آپ سے گفتگو کوئی دیکھتا در و بام سے
مری اپنے آپ سے گفتگو کوئی دیکھتا در و بام سے
فیصل ہاشمی
میں خود حیران ہوں شہزاد
مرزا ،
یہ سارے کام کیسے ہو رہے ہیں
یہ سارے کام کیسے ہو رہے ہیں
میں بہت خوش نہیں رہا لیکن،
وہ تو کچھ بھی بتا نہیں رہی ہے
وہ تو کچھ بھی بتا نہیں رہی ہے
میں زخمی شیر بن کر دھاڑتا
ہوں،
وہ چنچل اپنے کامو ں میں لگی ہے
شہزاد مرزا
وہ چنچل اپنے کامو ں میں لگی ہے
شہزاد مرزا
میں کس گماں میں سمجھ رہا
تھا کہ وہ یہیں ہے
مگر وہ کرسی تو کب کی خالی پڑی ہوئی تھی
مگر وہ کرسی تو کب کی خالی پڑی ہوئی تھی
مہک رہا تھا کسی کی یادوں سے
رات بستر
ہمارے پہلو میں خوش خیالی پڑی ہوئی تھی
ہمارے پہلو میں خوش خیالی پڑی ہوئی تھی
میں نے جس جس کو بھی چاہا ہے بہت چاہا ہے
تم کسی ایک سے تصدیق کرا
سکتی ہے
مجھے انتظار تھا شام سے، میں
بھرا ہوا تھا کلام سے
مری اپنے آپ سے گفتگو، کوئی دیکھتا در و بام سے
مری اپنے آپ سے گفتگو، کوئی دیکھتا در و بام سے
مری بزم سے جو چلا گیا، تو
پتا چلا اسے رنج تھا
اسے رنج تھا کہا میں دیکھتا، میں پکارتا اسے نام سے
اسے رنج تھا کہا میں دیکھتا، میں پکارتا اسے نام سے
میں سو رہا تھا اور مری خواب
گاہ میں
اک اژدہا چراغ کی لو کو نگل گیا
میں ایک بینچ پہ دونوں کا نام لکھتا ہوں
وہ جانتی ہے سلیقہ مری لکھائی کا
وہ جانتی ہے سلیقہ مری لکھائی کا
وہ خاندان کی سب سے حسین لڑکی ہے
اور اس نے کرنا ہے خاصا سفر پڑھائی کا
اور اس نے کرنا ہے خاصا سفر پڑھائی کا
معید مرزا
میں نے تصویر بنانے میں تری
ایک لمحے کی بھی عجلت نہیں کی
ایک لمحے کی بھی عجلت نہیں کی
اسے دیکھو گے سمجھ جاؤ گے
میں نے بے وجہ محبت نہیں کی
میں نے بے وجہ محبت نہیں کی
میں آنکھیں بند کروں گا اور اس کو پا لوں گا
وہ ایک شخص مرا خواب سا بنا ہوا ہے
وہ ایک شخص مرا خواب سا بنا ہوا ہے
محبتوں کی کہانیوں کا مجھے بھی تھوڑا سا تجربہ ہے
اسی بنا پہ میں کہہ رہا ہوں کہ وہ جدا ہونے جا رہا ہے
معید مرزا
میں خوشیوں سے بھر جانے کا سوچ رہا تھا
کئی دنوں سے گھر جانے کا سوچ رہا تھا
معید مرزا
کئی دنوں سے گھر جانے کا سوچ رہا تھا
معید مرزا
مری خواہش ہے كہ پھولوں سے تجھے فتح کروں
ورنہ یہ کام تو تلوار بھی كر سکتی ہے
ورنہ یہ کام تو تلوار بھی كر سکتی ہے
(اظہر فراغ)
میرے ہاتھوں میں ترا ہاتھ ہے اور شعبدہ گر
ہنس رہے ہیں کہ مرے ہاتھ میں جادو نہیں ہے
سرفراز آرش
ماں کہتی تھی، دکھ تو رہے گا دنیا میں
جیسے سب رہتے ہیں , میرے لال رہو
اکبر معصوم
مرے چاروں طرف سائے ہی سائے بن رہے تھے
نجانے کِس طرف سے روشنی دی جارہی تھی
دھوئیں سے جِسم کی تشکیل کا اِک تجربہ تھا
توجہ چاک اور مِٹی سے ہٹتی جارہی تھی
ہمایوں خان
میں نے ہر دور کے آمر کا کیا ہے انکار
ان خداؤں سے بغاوت مِری تاریخ میں ہے۔
یونس متین
ماؤں نے چومنے ہوتے ہیں بریدہ سَر بھی
اُن سے کہنا کہ کوئی زخم جبیں پر نہ لگے
اُن سے کہنا کہ کوئی زخم جبیں پر نہ لگے
عمیر نجمی
مجھے وہ ایسے ملا تھا کہ اس کے عارض و لب
اگر چراغ نہ ہوتے ادھیڑ دیتا میں
اگر چراغ نہ ہوتے ادھیڑ دیتا میں
معید مرزا
مرے عجیب سوالوں کا فائدہ تو ہوا
پتہ چلا کہ اسے مسکرانا آتا ہے
پتہ چلا کہ اسے مسکرانا آتا ہے
ادریس بابر
میں نے سامان سفر باندھ کے پھر کھول دیا
ایک تصویر نے دیکھا مجھے الماری سے
ایک تصویر نے دیکھا مجھے الماری سے
نعمان شوق
میں روز اک شوخ سے آنکھیں ملا کر بیٹھ جاتا ہوں
ہمیشہ دوسری جانب سے پہلا وار ہوتا ہے
مبشر علی
میں سانس تک نہیں لیتا پرائی خوشبو میں
ڈری ہوئی ہے یونہی شاخِ یاسمیں مجھ سے
مرے گناہ کی مجھ کو سزا نہیں دیتا
مرا خدا کہیں ناراض تو نہیں مجھ سے
شاہد ذکی
میں جا تو رہا ہوں یہ گلی چھوڑ کے لیکن
اک ربط مرا تجھ سے تری چھت سے رہے گا
میں تو جیسا بھی ہوں سب لوگ مجھے جانتے ہیں
تیرے بارے میں بھی اک بات سنی ہے میں نے
مجھے سمجھاوَ نہ محسن کہ اب تو ہو چکی مجھ کو
محبت مشورہ ہوتی تو تم سے پوچھ کر کرتے
میں مقابلے میں شریک تھا فقط اس لیے
کوئی آ کے مجھ سے یہ پوچھتا ترا کیا بنا
میں اکیلا ہی بچا ہوں تو بتاوَں کس کو
کہ میں دنیا کی تباہی کا سبب جانتا ہوں
No comments:
Post a Comment