Thursday, 5 April 2012

"ش"سے بیت بازی(BaitBazi)


شجرکاری کے حق میں ہر وہ لکھنے والا لکھے
جو کاغذ میز اور کرسی پہ کچھ لکھتا رہا ہے


شہر میں دو طرح کے موسم ہیں
مال کے پاس اور مال سے دور
تیری اور میری ہر غلط فہمی
ہو بھی سکتی ہے ایک کال سے دور
ادریس بابر


شبہ سا رہتا ہے یہ زندگی ہے بھی کہ نہیں
کوئی تھا بھی کہ نہیں تھا،کوئی ہے بھی کہ نہیں
دل نے خود پہلی محبت کو سبوتاژ کیا
دوسری کے لیے اور دوسری ہے بھی کہ نہیں
ظفر اقبال


شہرِ گل کے خس و خاشاک سے خو ف آتا ہے
جس کا وارث ہوں اُسی خاک سے خوف آتا ہے
افتخار عارف


شہر میں چاند رات ہے اور گلی کے وَسط مِیں
ایک فقیر ، اک صدا ، ایک خدا ، اور ایک مَیں
اُسامہ خالد


شجر سمجھ کے مرا  احترام کرتے ہیں
پرندے رات کو مجھ میں قیام کرتےہیں


شاید یہ دیکھ لوں کہ کہاں تک ہے تیرگی
اب روشنی کے ساتھ سفر تر رہا ہوں میں


شبِ ہجراں میں در آتی ہیں کیسے یہ ملاقاتیں
تماشا ہائے خلوت نے ہمیں حیران کر رکھا ہے


شاید تیرے لبوں کی چٹک سے ہو جی بحال
اے دوست مسکرا کہ طبیعت اداس ہے


شاید بنانے والے کو کچھ اس کی خبر ہو
کس نقطۂ نظر سے بنایا گیا ہوں میں


شروعِ عشق  میں ایسی اداسیاں تابش
ہر ایک شام یہ لگتا ہے شام آخری ہے


شکستہ دل ہوں مگر مسکرا کے ملتا ہوں
اگر یہ فن ہے تو آیا ہے اک عذاب کے بعد


شدتِ درد میں ہونٹوں پہ دعا کا ہونا
ثابت اس سے بھی تو ہوتا ہے خدا کا ہونا


شکستہ خواب و شکستہ پا ہوں مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا
میں آخری جنگ لڑ رہا ہوں،مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا


شامِ اسیری و شبِ غربت تو ہو چکی
اک جاں کی بات ہے تو لبِ داری ہی سہی


شہر یاروں کے بلاوے بہت آتے ہیں فراز
یہ نہ ہو آپ بھی دربار میں گم ہو جائیں


شاید وہ کوئی حرفِ وفا ڈھونڈ رہا تھا
شہروں کو بڑے غور سے پڑھتا تھا اک


شاہد خفا تھا کتبِ تقدیر اس لیے
ہم نے زمیں پہ اپنے ستارے بنائے تھے


شاہد کرے گا کون یقیں تیرے خواب کا
یہ لوگ تو مکر گئے تھے معجزے سے بھی


شعوری کوششیں منظر بگاڑ دیتی ہیں
وہی بھلا ہے جو بے ساختہ بنا ہوا ہے


شام ہوتے ہی تمازت کے سنہری لمحے
جا ابھرتے ہیں تری آنکھوں کے مے خانوں میں
میں نے الجھی ہوئی سطروں کو مرتب کر کے
ایک دیوان بنا رکھا ہے دیوانوں میں


شکایت نہ کرتا زمانے سے کوئی
اگر مان جاتا منانے سے کوئی
کسی کو کبھی یاد ہم بھی نہ کرتے
اگر بھول جاتا بھلانے سے کوئی


شام ہوتے ہی اداسی نے ہمیں گھیر لیا
ایسا لمحہ تھا کہ سورج کو بھی مر جانا تھا

1 comment:

  1. شاید وہ کوئی حرفِ وفا ڈھونڈ رہا تھا
    چہروں کو بڑے غور سے پڑھتا تھا جو اِک شخص

    ReplyDelete