صرف اسی بات کا میں چاہتا ہوں تم سے جواب
مجھ سے پوچھا ہے کسی نے کہ تمہارا کوئی ہے
عباس تابش
مجھ سے پوچھا ہے کسی نے کہ تمہارا کوئی ہے
عباس تابش
صندل سی مہکتی
ہوئی پر کیف ہوا سے
جھونکا کوئی
ٹکرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
صبر کرتا ہے کبھی اذن جنوں مانگتا ہے
جسم ترتیب سے گریے کا ستون مانگتا ہے
صلح اس بات پہ کر لیں تو
خرابی کیا ہے
دونوں ہمسائے ہیں اور اردو زباں بولتے ہیں
دونوں ہمسائے ہیں اور اردو زباں بولتے ہیں
ممتاز گرمانی
صاف کہہ دو اگر گلہ ہے کوئی
فیصلہ فاصلے سے بہتر ہے
صلح کر لی یہ سوچ کر میں نے
میرے دشمن نہ تھے برابر کے
صلیبِ وقت پہ میں نے پکارا تھا محبت کو
میرے آواز جس نے بھی سنی ہو گی ہنسا ہو گا
صرف اس شوق میں پوچھی ہیں ہزاروں باتیں
میں ترا حسن،ترے حسنِ بیاں تک دیکھوں
صندل سا ہاتھ ماتھے پہ،سر خم،نظر جھکی
آداب یوں کہو گے تو ہم مر نہ جائیں گے
صوفیِ شہر بھی پردے میں تصوّف کے سہی
چھیڑ دیتا ہے اسی یارِ طرح دار کی بات
صدیاں تیری سمیٹ کے جو لے گیا قتیل
اب تیرے پاس لوٹ کے وہ پل نہ آئے گا
صحرا کی طرح دیر سے پیاسا تھا وہ شاید
بادل کی طرح ٹوٹ کے برسا تھا جواک شخص
صحرا کا اک درخت ہوں تنہائیوں میں گم
ایسا نہ اپنی ذات میں کھویا کرے کوئی
صبحِ خزاں کی آخری یلغار ہے فراز
اک دل گرفتہ پھول ہے اور دوسری ہوا
صبا نے پھر درِزنداں پہ آ کے دی دستک
سحر قریب ہے دل سے کہو نہ گھبرائے
صرف اک میرے ہی دل میں ہیں سبھی ہنگامے
سارے عالم خموشی ہے،سکوں طاری ہے
صادق ہوں اپنے قول میں غالب خدا گواہ
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے
صورتِ نقشِ قدم دشت میں رہنا محسن
اہنے ہونے سے نہ ہونے کا پتہ بھی دینا
No comments:
Post a Comment