Thursday, 5 April 2012

"و"سے بیت بازی(BaitBazi)

وہ جو ہمیں عزیز ہے، کیسا ہے کون ہے
کیوں پوچھتے ہو ہم نے بتانا تو ہے نہیں


وہ مجھ سے اپنا حصہ لے چکا ہے
اب میں صرف اپنا رہ گیا ہوں
ادریس بابر


وہ بھی سزا سناتے ہوئے سوچتا نہیں
اس کے بغیر کوئی بھلا کیسے خوش رہے


وہ درد،وہ وفا،وہ محبت تمام شد
لے! دل میں ترے قرب کی حسرت تمام شد
وہ روز روز مرنے کا قصہ ہوا تمام
وہ روز دل کو چیرتی وحشت تمام شد
یہ بعد میں کھلے گا کہ کس کس کا خون ہوا
ہر اک بیاں ختم،عدالت تمام شد
تو اب تو دشمنی کے بھی قابل نہیں رہا
اٹھتی تھی جو کبھی وہ عداوت تمام شد
محسن نقوی


وہ مجھ سے اتنی محبت جتانے لگتا ہے
کبھی کبھی تو مجھے خوف آنے لگتا ہے


وہ ایک پل ہی سہی جس میں تم میسر ہو
اس ایک پل سے زیادہ تو زندگی بھی نہیں


وہ مرے دل کی پریشانی سے افسردہ ہو کیوں
دل کا کیا ہے کل کو پھر اچھا بھلا ہو جائے گا


وقت کے اختصار سے ہاتھ نہیں چھڑا سکا
ورنہ یہ بات وہ نہ تھی جاتا جسے نبیڑ کے
جن کو ڈرا دیا گیا، خواب دکھا دیا گیا
سوئے نہ ساڑھے آٹھ تک جاگے ہوئے تھے ڈیڑھ کے
نصراللہ حارث


وہ تو ہم نے کہا کہ تم بھی ہو
ورنہ کوئی نظام تھا ہی نہیں
سب خبر کرنے والوں پر افسوس
یہ خبر کا مقام تھا ہی نہیں
شاہین عباس


وہ تمہیں چھوڑرہا ہے توپریشاں کیوں ہو
اس نے پہلے بھی تو اک بارتمہیں چھوڑا تھا
معین شاداب


وقت آفاق کے جنگل کا جواں چیتا ہے
میری دنیا کے غزالوں کا لہو پیتا ہے


وہ جو اک شخص مجھے طعنہِ جاں دیتا ہے
مرنے لگتا ہوں تو مرنے بھی کہا ں دیتا ہے


وہ جس کے لیے دل نے دیا سبز اشارا
ہنستی ہے تو گالوں میں چمکتا ہے ستارا
یوں ہاتھ رکھو ہاتھ پہ میرے کہ میں کہہ دوں
تم آج سے میری ہوئی اور میں ہوں تمہارا


والہانہ نہیں برتاؤ تمہارا ہم سے
کیا تمہیں اور کوئی شخص ہے پیارا ہم سے
انور شعور


وہ آنکھ جس کے لیے میں اداس رہتا ہوں
بھری ہوئی ہے کسی اور ہی نظارے سے
فیصل ہاشمی


وہ راستے میں ملے گا تو پھیر لوں گا نظر
اگر وہ فون کرے گا اٹھا کے رکھ دوں گا
معید مرزا


وہ خاندان کی سب سے حسین لڑکی ہے
اور اس نے کرنا ہے خاصا سفر پڑھائی کا
معید مرزا


وہ کیسے میرے دل سے رہا ہو سکے گی دوست
موقع شکایتوں کا میں دوں گا نہیں اسے
اک حد لگا رکھی ہے تعلق کے درمیان
ہر بات اپنے دل کی میں کہتا نہیں اسے
معید مرزا


وہ آئے گی آنکھوں پہ مری ہاتھ رکھے گی
اور ڈھونڈ کے لائے گی وہی خواب ہمارا
وہ میرے لیے چاند کے مانند ہے شب بھر
میں جس کی ہتھیلی پہ بناتا تھا ستارا 


وہ مرے ضبط کا اندازہ کرنے آیا تھا
میں ہنس کے زخم نہ کھاتا تو اور کیا کرتا


 وہ جو اک بات بہت تلخ کہی تھی اس نے
بات تو یاد نہیں،یاد ہے لہجہ اس کا


 وہ آئینے کو بھی حیرت میں ڈال دیتا ہے
کسی کسی کو خدا یہ کمال دیتا ہے


 وہ کر نہیں رہا تھا مری بات کا یقین
پھر یوں ہوا کہ مر کے دکھانا پڑا مجھے


 وقت جب لکھے گا اپنا فیصلہ تب دیکھنا
سینکڑوں خوش فہمیوں کو منہ کھلے رہ جا ئیں گے


 وہ مجھے بھول ہی گیا ہو گا
اتنی مدت خفا نہیں رہتا


 وہ آنکھوں انکھوں میں کرتے ہیں اس طرح باتیں
کہ کانوں کان کسی کو خبر نہیں ہو تی


 ورنہ تصویر میں کیا تھا جسے مانا جاتا
اسکی مشہوری ذرا آنکھ بھر آنے سے ہوئی


 وہی ہوا ہے،جو ہوتا ہے سونے والوں سے
اے میرے دل! تیرے پہلو نشیں چلے گئے ہیں


 وہ چاہتا تھا کہ دیکھے مجھے بکھرتے ہوئے
سو اس کا جشن بہ صد اہتمام کیا میں نے


 وہ ہاتھ ہاتھ میں آنے کی دیر ہوتی ہے
ستارے  اور کسی  رخ پہ چلنے لگتے ہیں


  وقت خوش خوش کا ٹنے کا مشورہ دیتے ہوئے
رو پڑا وہ آپ مجھ کو حوصلہ دیتے ہوئے


 وہ تو آنکھوں نے مخبری کر دی
ورنہ میں مانتا کہ میں رویا؟


 وہ دن بھر کچھ نہیں کرتے ہیں،میں آرام کرتا ہوں
وہ اپنا کام کرتے ہیں،میں اپنا کام کرتا ہوں


 وہ جاتے ہوئے خود کو یہیں چھوڑ گیا ہے
اس کو تو بچھڑنے کا سلیقہ بھی نہ آیا


 وفاوَں کا بھرم ٹوٹے تو کیوں زندہ رہے کوئی
کہ جب دستار گر جائے تو سر اچھے نہیں لگتے


 وفا کی لاج میں مجھ کو منا لیتے تو اچھا تھا
انا کی جنگ میں اکثر جدائی جیت جاتی ہے


 وہ بھولتا ہے نہ دل میں اتارتا ہے مجھے
ہمیشہ مار محبت کی مارتا ہے مجھے


 وہ یک بیک ملا تو بہت دیر تک ہمیں
الفاظ ڈھونڈنے کی بھی مہلت نہیں ملی


  وہ تو وہ ہے تمہیں ہو جا ئے گی الفت مجھ سے
اک نظر تم مرا محبوبِ نظر تو دیکھو


وہ دور بھی دیکھا ہے تاریخ کی آنکھوں نے
لمحوں نے خطا کی صدیوں نے سزا پائی


وہ بے وفا ہے تو کیا مت کہو برا اس کو

کہ جو ہوا سو ہوا خوش رکھے خدا اس کو

No comments:

Post a Comment