گھر میں ترتیب سے رکھی ہوئی
چیزوں سے مجھے
اپنی برباد تمنا کا پتا چلتا
ہے
گھر تو در و
دیوار کی حد تک ہے سلامت
لیکن وہ جو
کچھ ٹوٹ گیا ہے مرے دل میں
یہ لوگ ذرا
دیر کو ٹل جائیں تو صاحب
پھر دیکھیے
کیا وقت ہوا ہے مرے دل میں
گنگناتے راستوں کی دلکشی اپنی جگہ
اور سب کے درمیاں تیری کمی اپنی جگہ
اور سب کے درمیاں تیری کمی اپنی جگہ
انور شعور
گُلِ سخن سےاندھیروں میں تاب
کاری کر
نئے ستارے کھلا خواب شار جاری کر
نئے ستارے کھلا خواب شار جاری کر
ادریس بابر
گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا
ہم تیرے شہر سے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں
گر پڑی رات کو تصویر پرانی مجھ سے
پھر کسی طور بھی دیوار نہ مانی مجھ سے
گھر ہمارا جو نہ روتے تو بھی ویراں ہوتا
بحر گر بحر نہ ہوتا تو بیاباں ہوتا
گونجتے رہتے ہیں الفاظ میرے کانوں میں
توتو آرام سے کہہ دیتا ہے اللہ حافظ
گزارنی تھی عارضی امان میں گزار دی
یہ زندگی کرائے کے مکان میں گزار دی
نہ دوستوں نہ د شمنوں کے کام آ سکا کبھی
یہ تیر جیسی زندگی کمان میں گزار دی
گزرے ہیں زندگی میں ایسے بھی حادثات
نفرت سی ہو گئی ہے محبت کے نام سے
گلہ تجھ سے نہیں اے کاتبِ تقدیر مگر
رو پڑے تو بھی اگر میرا مقدر دیکھے
گزر رہے ہیں مرے دن اسی تفاخر میں
کہ اگلا قیس میرے خاندان سے ہو گا
گماں نہ کر کہ مجھے جراَتِ سوال نہیں
فقط یہ ڈر ہے تجھے لا جواب کر دوں گا
گھر کی دیوار سجانے کے لئے
ہم تیرا نام لکھا کرتے ہیں
گو واں نہیں پہ واں سے نکالے ہوئے تو ہیں
کعبے سے ان بتوں کو بھی نسبت ہے دور کی
گو ذرا سی بات پہ برسوں کے یارانے گئے
لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے
گھر سے چلا تو گھر کی اداسی سسک اٹھی
میں نے اسے بھی رکھ لیا رختِ سفر کے بیچ
گھروں پہ نام تھے،ناموں کے ساتھ عہدے تھے
بہت تلاش کیا کوئی آدمی نہ ملا
گھیر لیتے ہیں مجھے رستے تری یادوں کے
جب بھی کرتا ہوں ترے بعد سفر شام کے بعد
گر سکھا دیں گے بادشاہی کے
ہم فقیروں سے دوستی کر لو
گدائی اس لیے قسمت ہے میری
کہ ان کا کام ہے خیرات کرنا
گزر تو جائے گی تیرے بغیر بھی لیکن
بہت اداس،بہت بے قرار گزرے گی
گئے دنوں کا سراغ لے کر کہاں سے آیا کدھر گیا وہ
عجیب مانوس اجنبی تھا نجھے تو حیراں کر گیا وہ
گلے ملتے ہیں جب آپس میں دو بچھڑے ہوئے ساتھی
عدم ہم بے سہاروں کوبڑی تکلیف ہوتی ہے
No comments:
Post a Comment