Thursday, 5 April 2012

"ل"سے بیت بازی(BaitBazi)


لپک پڑوں گا میں تصویر سے تری جانب
یہ تیری سمت مرا آخری قدم ہو گا
سرفراز آرش


لب پہ آتی ہے بات دل سے حفیظ
دل میں جانے کہاں سے آتی ہے؟
حفیظ ہوشیار پوری


لفظ لکھ لکھ کے مٹاتا ہوں تو یہ سوچتا ہوں
زندگی یوں ہی ریہرسل میں گزر جائے گی


لفظ اور آواز دونوں کھو گئے
مجھ سے حق چھینا گیا ہے بات کا
مستحسن جامی


لکھا رکھا ہے عہدِ ترکِ الفت
مگر دل دستخط کرتا نہیں ہے


لو کسی اور کے ہوے ہم بھی
آج اس کا غرور ٹوٹے گا


لو دیکھ لو یہ عشق ہے یہ وصل ہے،یہ ہجر
اب لوٹ چلیں آوَ،بہت کام پڑے ہیں


لاکھ چاہا ہم نے اس کو بھول جائیں پر قتیل
حوصلے اپنی جگہ ہیں، بے بسی اپنی جگہ


لازم تو نہیں سب کو ملے ایک سا جواب
آوَ کہ ہم بھی سیر کریں کوہِ طور کی


لب کشا لوگ ہیں سرکار کو کیا بولنا ہے
اب لہو بولے گا،تلوار کو کیا بولنا ہے


لوٹ آتی ہے مری شب کی عبادت خالی
جانے کس عرش پہ رہتا ہے خدا شام کے بعد


لہو تک آنکھ سے اب بہہ لیا ہے
بہت جبر تھا لیکن سہہ لیا ہے


لوگوں نے اس کو میری محبت سمجھ لیا
محسن وہ مجھ کو جان سے پیارا تھا اور بس


لوگ کہتے ہیں فقط ایک ہی پاگل ہے فراز
ایسے ایسے ہیں محبت میں گرفتار کہ بس


لاش پٹڑی پہ پڑی دیکھی ہے جب سے تب سے
ریل گاڑی کی صدا اپنی طرف کھینچتی ہے


لے رکھ تو اپنا حرفِ تسلی بھی پاس رکھ
یہ کوئی کاروبار نہیں کر رہا ہوں میں


لکھنا میرے مزار کے کتبے پہ یہ حروف
مرحوم زندگی کی حراست میں مر گیا


لکھنا تو تھا کہ خوش میں تیرے بغیر بھی
آنسو مگر کلام سے پہلے ہی گر پڑے


لفظ مردہ ہیں لغت کوئی اٹھا کر دیکھو
صرف جذبات ہی لفظوں کو اثر دیتے ہیں


لفظ نشتر کی طرح دل میں اتر جاتے ہیں
خط محبت کا بھی لکھتا ہے وہ تلوار کے ساتھ


لے گیا جان مری روٹھ کے جانا تیرا
ایسے آنے سے تو بہتر تھا نہ آنا تیرا

No comments:

Post a Comment