Thursday, 5 April 2012

"ر"سے بیت بازی(BaitBazi)


رہنا نہیں ہے گرچہ گوارا زمیں پر
لیکن اک آدمی ہے ہمارا زمیں پر


ربط کی خیر ہے بس تیری انا بچ جائے
اس طرح جا کہ تجھے لوٹ کے آنا نہ پڑے
ہجر ایسا ہو کہ چہرے پہ نظر آ جائے
زخم ایسا ہو کہ دکھ جائے دکھانا نہ پڑے
عمیر نجمی


رات دہلیز پہ آنکھوں کو بٹھائے رکھا
تم نہیں آئے کوئی خواب تو بھیجا ہوتا


رات خالی ہی رہے گی میرے چاروں جانب
اور یہ کمرا تیرے خواب سے بھر جائے گا


رات مہکی ہوئی آئی ہے کہیں سے پوچھو
آج بکھرائے ہوئے زلف طرح دار ہے کون
پھر درد دل پر کوئی دینے لگا ہے  دستک
جانے پھر دل وحشی کا طلب گار ہے کون
فیض احمد فیض


روشنی کی طرح مدھم نہیں کی جا سکتی
یہ محبت ہے تو پھر کم نہیں کی جا سکتی
ادریس بابر


رہنا نہیں اگرچہ گوارا زمین پر
لیکن اک آدمی ہے ہمارا زمین پر
جمال احسانی


رحمتِ سیدِ لولاک پہ کامِل ایمان
اُمتِ سیدِ لولاک سے خوف آتا ہے
افتخار عارف


راستے راستہ نہیں دیتے
جب ترا واسطہ نہیں دیتے


روکنا تو چاہتا ہوں تم مگر جلدی میں ہو
ہاں اجازت ہے، چلے جاؤ اگر جلدی میں ہو


رات بھی، نیند بھی، کہانی بھی
ہائے کیا چیز ہے جوانی بھی 


رکھا ہی گھر میں کیا ہے کہ ترتیب دوں جسے
کچھ خواب ہیں ادھر سے ادھر کر رہا ہوں میں


 راستوں کا غرور تو دیکھو
جیسے تیری گلی کو جاتے ہوں


 روز آتا ہے میرے دل کو تسلی دینے
تجھ سے اے دشمنِ جاں ترا خیال اچھا ہے


 روز آتی  ہے میرے دل کو تسلی دینے
شبِ تنہائی بتا تو میری کیا لگتی ہے


 رات دروازے پہ کتنی دستکوں کے زخم تھے
پھر وہی پاگل ہوا تھی،پھر مجھے دھوکا ہوا


رنگین مزاجوں کے شوقین طبیعت کے
وہ لوگ بلا لاءو نمکین طبیعت کے
اس عمر میں ملتے ہیں کب یار نشے جیسے
دارو کی طرح تیکھے کوکین طبیعت کے

No comments:

Post a Comment