فریب دے کر ترا جسم جیت لوں لیکن
میں پیڑ کاٹ کے کشتی نہیں بناؤں گا
میں پیڑ کاٹ کے کشتی نہیں بناؤں گا
حافی
فرط درد سے
میں نے انگلیوں کی پوروں پر
اشک جب سمیٹے
تھے،آپ بھی تو بیٹھے تھے
اصغر شاہ
فصل پکتی ہے
مضامین بدل جاتے ہیں
وہ کہیں ترک
تعلق کا شائق ہی نہ ہو
فرض کرتا ہوں
اس کے ہاتھ میں ہاتھ
اور پھسلتا
نہیں ہوں بارش میں
عزیز فیصل
فیض دلوں کے بھاگ میں ہے گھر
بھرنا بھی، لُٹ جانا بھی
تم اس حسن کے لطف و کرم پہ کتنے دن اتراؤ گے
تم اس حسن کے لطف و کرم پہ کتنے دن اتراؤ گے
فیض احمد فیض
فقط زمین کا ٹکڑا ہے دسترس
میں مری
وہ جس نے جسم کو سائے سے باندھ رکھا ہے
ادھر وہ آخری گاڑی نکلنے والی ہے
کسی نے آخری چائے سے باندھ رکھا ہے
وہ جس نے جسم کو سائے سے باندھ رکھا ہے
ادھر وہ آخری گاڑی نکلنے والی ہے
کسی نے آخری چائے سے باندھ رکھا ہے
فلک پہ بھیڑ لگی تھی شکستہ آہوں کی
دعا سے پہلے مجھے راستہ بنانا پڑا
حارث بلال
فریبِ ہجر میں کیا کیا دکھائی دیتا ہے
وہ جا رہا ہو تو آتا دکھائی دیتا ہے
فاصلے ایسے بھی
ہونگے یہ کبھی سوچا نہ تھا
سامنے بیٹھا تھا مرے اور وہ میرا نہ تھا
فصیلِ جاں کے قیدی ہیں مگر یہ دھیان رکھا ہے
ہوا کے واسطے ہم نے درِ امکان رکھا ہے
No comments:
Post a Comment