Thursday, 5 April 2012

"ج"سے بیت بازی(BaitBazi)


جس کی خاطر ساری دنیا چھوڑنے کو جی چاہے
اس کے ساتھ بھی رہ کر آدمی تنہا ہو سکتا ہے
سلیم کوثر


جدا کروں تو مری سانس ہی نہیں چلتی
تری طلب تو مری دھڑکنوں میں بیٹھ گئی


جنگ چھڑی تو اب کی بار کوئی نہ بچ کے جا سکا
پیڑ جو تھے بچے کھچے،گھاس جو تھی رہی سہی
ادریس بابر


جن سے افسانہ ہستی میں تعلق تھا کبھی
ان محبت کی روایات نے دم توڑ دیا
ہائے آداب محبت کے تقاضے ساغر
لب ہلے اور شکایات نے دم توڑ دیا
ساغر صدیقی


جو زمانے میں محبت کا بھرم ہیں ہم ہیں
وہ جو اب بھی ترے معیار سے کم ہیں ہم ہیں
تو نے کیا سوچ کے سمجھا ہے اکیلا خود کو
بار ہا تجھ کو بتایا بھی کہ ہم ہیں،ہم ہیں
صغیر احمد صغیر


جو بھی شیریں سخنی ہے ،مرے مکی مدنی
تیرے ہونٹوں سے چھنی ہے، مرے مکی مدنی
نسل در نسل تری ذات کے مقروض ہیں ہم
تو غنی ابن غنی ہے ،مرے مکی مدنی
رام ریاض


جنہیں گلے ہوں وہ آئیں اور آ کے بات کریں
دلوں کی میز پہ بیٹھیں مذاکرات کریں
نیلوفر افضل


جیتی رہو کہانیو،ملتے ہیں یار ایک دن
ایک ہزار ایک رات،ایک ہزار ایک دن
آنکھ بچا کے کے گیا، ہاتھ بڑھا کے لے گیا
رات کے پار ایک خواب، خواب کے پار ایک دن
ادریس بابر


جاب ضروری ہوتی ہے صاحب مجبوری ہوتی ہے
جاب کے گھن چکر میں پڑ کر خواب بکھرنے مت دینا
ایسی لہریں ایسی بحریں کب قسمت سے ملتی ہیں
اچھے مانجھی اب نیا کو پار اترنے مت دینا
ادریس بابر


جواب دینا کس قدر محال کر دیا گیا
جب اس طرف سے اور اک سوال کر دیا گیا
تو کیا مجھے بھی عشق میں نڈھال کر دیا گیا
کمال کر دیا گیا ، کمال کر دیا گیا


جانے کیا باتیں کرتی ہیں دن بھر آپس میں دیواریں
دروازے پہ قفل لگا کر ہم تو دفتر آجاتے ہیں
ذوالفقار عادل


جو کچا رہ جاوے اُس برتن کا کیا
کوزہ گر کا دل آوے میں آجاوے
روکنے والا مر جاوے ہے سکتے میں
جانے والا پچھتاوے میں آجاوے
نصراللہ حارث بھائی


جو دِکھ رہا ہے اسی کے اندر جو ان دِکھا ہے وہ شاعری ہے
جو کہہ سکا تھا وہ کہہ چکا ہوں جو رہ گیا ہے وہ شاعری ہے


تمام دریا جو اک سمندر میں گر رہے ہیں تو کیا عجب ہے
وہ ایک دریا جو راستے میں ہی رہ گیا ہے وہ شاعری ہے
احمد سلمان


جیب خرچی کی طرح پیار ہمیں ملتا ہے
جس طرح کام چلاتے ہیں یہ ہم جانتے ہیں
شاہد نواز


جدا ہوئے ہیں بہت لوگ ایک تم بھی سہی
    اب اتنی بات پہ کیا زندگی حرام کریں؟


جوابی خط میں یوں اس نے میرے بارے میں لکھا تھا
برا بھی کہہ نہیں سکتی مگر اچھے نہیں لگتے


جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہو گا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے


جتنی شدت سے مجھے زخم دیئے ہیں تو نے
اتنی شدت سے تو میں نے تجھے چاہا بھی نہ تھا


جس کا جی چاہے وہ انگلی پہ نچا لیتا ہے
جیسے بازار سے منگوائے ہوئے لوگ ہیں ہم


جیسے بھی کر رہا ہوں گزر کر رہا ہوں میں
پر اپنی زندگی تو بسر کر رہا ہوں میں


جو ہو یارو بہروپ چراغوں کو جلانا ہے
ہوائیں کتنی برہم ہیں یہ ہم نے جان رکھا ہے


جب بھی کہیں حساب کیا زندگی کا دوست
پہلے تمہارے نام کا حصہ الگ کیا
احمد رضوان


جس قدر رونے کی عادت ہےوہ دن دور نہیں
لوگ بلوائیں گے مرنے پہ مجھے رونے کو


جس شخص سے شدید محبت ہو تم کو وہ
تصویر میں دکھایا گیا ہو کسی کے ساتھ
معید مرزا


جب سمندر تری آواز سے بھر جاتا ہے
دیر لگتی ہے کنارے کی طرف آنے میں
ظفر اقبال

No comments:

Post a Comment